ہوا ہے سامنے آنکھوں کے خانداں آباد
مکان میں ہی ہوئے ہیں کئی مکاں آباد
تمہاری یاد میں آباد جسم و جاں میرے
تمہارے ذکر سے ہے میری داستاں آباد
اجڑ گئی ہے ہر اک سمت موسم گل میں
نہ باغباں ہے سلامت نہ گلستاں آباد
کوئی پیام نہ کوئی عطا پتا ان کا
کوئی بتائے کہاں پر ہیں رفتگاں آباد
عجیب جزو ہے یہ میرے جسم کا کہ یہاں
کہیں یقین ہے قائم کہیں گماں آباد
یہی دعا ہے مری اور یہی تمنا ہے
سدا رہے میری وادی یہاں وہاں آباد
کوئی بھی فیصلہ ہوگا نہیں رہے جب تک
تمہاری تیغ سلامت مری سناں آباد

غزل
ہوا ہے سامنے آنکھوں کے خانداں آباد
ہمدم کاشمیری