ہوتی ہے ہار جیت پنہاں بات بات میں
چوپڑ بچھی ہے انجمن کائنات میں
رکھ فکر جسم عاریتی کائنات میں
چوری نہ جائیں مانگ کے کپڑے برات میں
پیاسے مری لہو کے ہیں سب کائنات میں
کشتی عمر چلتی ہے آب فرات میں
بے عقل ہو کے آ گئے ہستی کی گھات میں
دیوانے بن کے پھنس گئے قید حیات میں
ساقی سے کہہ دو سبزۂ تر میں بہا شراب
ٹانکے کدو کی بیل قبائے نبات میں
کی تلخ گفتگو لب جاں بخش سے مدام
افیون گھولی آپ نے آب حیات میں
قائم مزاجیوں میں بھی غفلت محیط ہے
ہے خواب مرگ مخمل رنگ ثبات میں
ہونٹوں کا عشق تھا یہ رہے آبرو کی بات
مردے کو غسل دیجئے آب حیات میں
پہنچا جو تیرے کوچہ میں خود رفتہ ہو گیا
جاتا رہا میں آپ سے راہ نجات میں
ملتے ہیں خوبرو ترے خیمے سے چھاتیاں
انگیا کی ڈوریاں ہیں مقرر قنات میں
ہستی میں ترک کیجئے زلفوں کے عشق کو
زنجیریں دوہری توڑیئے قید حیات میں
موسیٰ و خضر نے ترے بٹنے کے واسطے
گھولا ہے برق طور کو آب حیات میں
غارت کیا اخیر جوانی میں دہر کو
دنیا تمام لوٹ لی تھوڑی سی رات میں
جز داغ زندگی میں نہیں اور کچھ سرور
افیون کب ہے لالۂ رنگ ثبات میں
مدت سے ڈھیر جادۂ باک نجف میں ہے
تکیہ ہے اس فقیر کا راہ نجات میں
شادی ہوئی جو رات کو کھیلے وہ گنجفہ
روشن کیا غلام نے اکا برات میں
کوچہ میں رکھ کے عاشق مضطر کی ہڈیاں
مچھلی کے کانٹے بو دیے راہ نجات میں
دل کی صفا ہو جامۂ ہستی میں جلوہ گر
جیب سحر اگاؤں قبائے حیات میں
ساون کے بدلے گائیے حافظؔ کے شعر تر
جھولا ضرور ڈالیے شاخ نبات میں
ہستی کی قید سے دل بے تاب چھپ گیا
مچھلی نہ ٹھہری بازوئے شمع حیات میں
مردے جلائے سیکڑوں ٹھکرا کر اے صنم
دست مسیح کا ہے اثر تیری لات میں
شیریں ادائیاں بھی ہوں رفتار ناز بھی
کافور صبح حشر ہو قند و نبات میں
ہونٹوں کی مستی دور کی تو نے کھٹائی سے
لیموں کی چاشنی ہے تری میٹھی بات میں
اندھا بنائیں گے وہ رلا کر عتاب سے
رہتے ہیں روز آنکھ چرانے کی گھات میں
موت آئے مجھ کو ہجر میں احمدؐ کی اے منیرؔ
واللہ کچھ مزا نہیں ایسی حیات میں
غزل
ہوتی ہے ہار جیت پنہاں بات بات میں
منیرؔ شکوہ آبادی