EN हिंदी
ہوتے ہیں جو سب کے وہ کسی کے نہیں ہوتے | شیح شیری
hote hain jo sab ke wo kisi ke nahin hote

غزل

ہوتے ہیں جو سب کے وہ کسی کے نہیں ہوتے

باصر سلطان کاظمی

;

ہوتے ہیں جو سب کے وہ کسی کے نہیں ہوتے
اوروں کے تو کیا ہوں گے وہ اپنے نہیں ہوتے

مل ان سے کبھی جاگتے ہیں جن کے مقدر
تیری طرح ہر وقت وہ سوئے نہیں ہوتے

دن میں جو پھرا کرتے ہیں ہشیار و خبردار
وہ میری طرح رات کو جاگے نہیں ہوتے

ہم ان کی طرف سے کبھی ہوتے نہیں غافل
رشتے وہی پکے ہیں جو پکے نہیں ہوتے

اغیار نے مدت سے جو روکے ہوئے تھے کام
اب ہم بھی یہ دیکھیں گے وہ کیسے نہیں ہوتے

ناکامی کی صورت میں ملے طعنۂ نایافت
اب کام مرے اتنے بھی کچے نہیں ہوتے

شب اہل ہوس ایسے پریشان تھے باصرؔ
جیسے مہ و انجم کبھی دیکھے نہیں ہوتے