ہوش اس کا ہے بے خودی اس کی
زندگی کی ہر اک گھڑی اس کی
دور تک ملگجا سا سناٹا
اور آہٹ کبھی کبھی اس کی
عشق میرا ہے صوفیوں جیسا
صرف مطلوب ہے خوشی اس کی
دل کو ہونٹوں سے دور رکھتا ہے
مار ڈالے گی خامشی اس کی
تیرگی چھا رہی ہے ہر جانب
بے وفائی ہے شام سی اس کی
دیکھ کر خوش گماں ہوا ہے دل
گرم جوشی کمال کی اس کی
ہم سفر جس کا خوب سیرت ہو
خوبصورت ہے زندگی اس کی
خواب میں دل نوازیاں جاویدؔ
اور حقیقت ہے بے رخی اس کی

غزل
ہوش اس کا ہے بے خودی اس کی
جاوید جمیل