ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
نفرت کا ریگزار مگر درمیان تھا
لمحے کے ٹوٹنے کی صدا سن رہا تھا میں
جھپکی جو آنکھ سر پہ نیا آسمان تھا
کہنے کو ہاتھ باندھے کھڑے تھے نماز میں
پوچھو تو دوسری ہی طرف اپنا دھیان تھا
اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن
کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بد زبان تھا
شعلے اگلتے تیر برستے تھے چرخ سے
سایہ تھا پاس میں نہ کوئی سائبان تھا
سب سے کیا ہے وصل کا وعدہ الگ الگ
کل رات وہ سبھی پہ بہت مہربان تھا
منہ پھٹ تھا بے لگام تھا رسوا تھا ڈھیٹ تھا
جیسا بھی تھا وہ دوستو محفل کی جان تھا
غزل
ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
عادل منصوری