ہونے کو اب کیا دیکھیے کیا کچھ ہے اور کیا کچھ نہیں
منظر ابھی ہے سامنے وہ بھی کہ جب تھا کچھ نہیں
اس کی حنا پر وار دے فی الفور دل کی سلطنت
پیارے کسی کے ہاتھ میں تا دیر رہتا کچھ نہیں
مت جان دل کے سامنے کافی ہے اک چہرہ ترا
ایسے اندھیرے کے لئے اتنا اجالا کچھ نہیں
کتنے گھروندے ریت کے موجیں بہا کر لے گئیں
ہر بار اک دل کے سوا ایسے میں ٹوٹا کچھ نہیں
صورت کو معنی کے تئیں درکار ہے کچھ فاصلہ
جب تک تھا آگے آنکھ کے میں نے تو دیکھا کچھ نہیں
غزل
ہونے کو اب کیا دیکھیے کیا کچھ ہے اور کیا کچھ نہیں
محمد اعظم