EN हिंदी
ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے | شیح شیری
hone ki gawahi ke liye KHak bahut hai

غزل

ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے

جمال احسانی

;

ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے

اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے

کچھ در بدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے

پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے

کیا اس سے ملاقات کا امکاں بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے

آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے

نادم ہے بہت تو بھی جمالؔ اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے