ہونے کا اعتبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب خود کو اختیار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب عشق اور دشت خسارے میں ہیں میاں
اب دل کا کاروبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
تیار ہے تماشا دکھانے کو ایک شخص
ماحول سازگار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب ہے نظام عشق میں ترمیم کا چلن
تاروں کا بھی شمار نہیں کر رہے ہیں لوگ
حیران ہوں کہ اتنی ریاضت کے باوجود
کیوں وقت کو غبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
خوش ہوں کہ آسماں سے ہے قائم زمیں کا ربط
دکھ ہے کہ پائیدار نہیں کر رہے ہیں لوگ
شاید کہ میری موت کا اعلان ہو چکا
اب مجھ پہ کوئی وار نہیں کر رہے ہیں لوگ
آگے کی دوڑ میں ہوئے محدود اس طرح
ماضی پہ اقتدار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اے یار اپنے حسن پہ کچھ خاک ڈال دے
اب عشق اختیار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب نصف شب نکلتے ہیں بے خوف کام پر
سورج کا انتظار نہیں کر رہے ہیں لوگ

غزل
ہونے کا اعتبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اسحاق وردگ