EN हिंदी
ہونا ہے غم کو خاک بسر جاگتے رہو | شیح شیری
hona hai gham ko KHak-basar jagte raho

غزل

ہونا ہے غم کو خاک بسر جاگتے رہو

خورشید الاسلام

;

ہونا ہے غم کو خاک بسر جاگتے رہو
ملتی ہے زندگی کی خبر جاگتے رہو

گردش وداع ہجر ہے اور مژدۂ وصال
گردش میں ہیں یہ شام و سحر جاگتے رہو

دیکھو گے صحن باغ میں آب رواں کا جوش
لائیں گے نخل برگ و ثمر جاگتے رہو

سینے کو چاک چاک کرو دل کو لخت لخت
آئیں گے گھر میں شمس و قمر جاگتے رہو

شیشہ اٹھاؤ جام میں ڈھالو غزل کہو
ہوتا ہے قافلوں کا گزر جاگتے رہو

دیکھو گے چشم نرگس جادو بہ کام دل
دیکھو گے زلف تا بہ کمر جاگتے رہو

رقص بتاں بھی ہوگا یہیں رقص جام بھی
آنکھوں میں بھر کے جوش نظر جاگتے رہو

وقت سحر ہے وقت مناجات و سیر گل
سونے میں ہے ضیائے سحر جاگتے رہو