ہوں کیوں نہ منکشف اسرار پست و بالا کے
جمے ہیں پاؤں زمیں پر سر آسماں کو چھوئے
جو سر نوشت میں ہے اس کو ہو کے رہنا ہے
تو کس بھروسے پہ انسان جد و جہد کرے
اب آسماں سے صحیفے نہیں اترتے مگر
کھلا ہوا ہے در اجتہاد سب کے لیے
زباں عطا کرے شعر ان کی بے زبانی کو
جو اپنے کرب کا اظہار کر نہیں سکتے
بہار و بہجت و عز و وقار اس پہ نثار
زباں سے مال سے جاں سے جو ظالموں سے لڑے
ہے آنسوؤں میں شفا کیسی کیا خبر اس کو
بہائے مکر سے جو جھوٹ موٹ کے ٹسوے
ہے بسکہ کام ہم ایسوں کا بھی مسیحائی
ہم آسمان پہ زندہ اٹھائے جائیں گے
غزل
ہوں کیوں نہ منکشف اسرار پست و بالا کے
عبد العزیز خالد