ہوگی اس ڈھیر عمارت کی کہانی کچھ تو
ڈھونڈ الفاظ کے ملبے میں معانی کچھ تو
لوگ کہتے ہیں کہ تو مجھ کو برا کہتا ہے
میں بھی سن لوں ترے ہونٹوں کی زبانی کچھ تو
برف نے کرب کی پتوار کو بھی توڑ دیا
دل کے دریا کو عطا کر دے روانی کچھ تو
بھول بیٹھے ہیں وہ بچپن کے فسانے لیکن
یاد ہوگی انہیں پریوں کی کہانی کچھ تو
نقش پا تک بھی نہ چھوڑے گی ہوا ہے پاگل
کون جانب مجھے جانا ہے نشانی کچھ تو
تیرے احساس میں شعلے ہیں یہ مانا شہپرؔ
صرف رسمی ہی سہی برف بیانی کچھ تو
غزل
ہوگی اس ڈھیر عمارت کی کہانی کچھ تو
شہپر رسول