ہو سکے تو دل صد چاک دکھایا جائے
اب بھری بزم میں احوال سنایا جائے
ہائے اس جان تمنا سے نبھے گی کیسے
ہم سے تو راز نہ اک روز چھپایا جائے
اپنا غم ہو تو اسے کہہ کے سکوں مل جائے
اس کا غم ہو تو کسے جا کے سنایا جائے
رات بھر جن کی ضیا سے رہے روشن کمرے
صبح دم ان ہی چراغوں کو بجھایا جائے
دھیان میں جس کے کئی جاگتی راتیں گزریں
راحتؔ اک رات اسے بھی تو جگایا جائے
غزل
ہو سکے تو دل صد چاک دکھایا جائے
امین راحت چغتائی