ہو رہی ہے در بدر ایسی جبیں سائی کہ بس
کیا ابھی باقی ہے کوئی اور رسوائی کہ بس
آشنا راہیں بھی ہوتی جا رہی ہیں اجنبی
اس طرح جاتی رہی آنکھوں سے بینائی کہ بس
تا سحر کرتے رہے ہم انتظار مہر نو
دیکھتے ہی دیکھتے ایسی گھٹا چھائی کہ بس
ڈھونڈتے ہی رہ گئے ہم لعل و الماس و گہر
کور بدبینوں نے ایسی خاک چھنوائی کہ بس
کچھ شعور و حس کا تھا بحران ہم میں ورنہ ہم
عہد نو کی اس طرح کرتے پذیرائی کہ بس
کیا نہیں کج عکس آئینوں کا دنیا میں علاج
جس کو دیکھو ہے عجب محو خود آرائی کہ بس
چاکری کرتے ہوئے بھی ہم رہے آزاد رو
دست و پائے شوق میں ہے وہ توانائی کہ بس
آہ کیا کرتے کہ ہم عادی نہ تھے آرام کے
چوٹ اک اک گام پر البتہ وہ کھائی کہ بس
اس حسیں گیتی کے کھل کر رہ گئے سب جوڑ بند
چند پاگل ذروں کو آئی وہ انگڑائی کہ بس
وہ تو کہئے بات کہ فرصت نہ تھی ورنہ اجل
پوچھتی گاوے زمیں سے اور پسپائی کہ بس
کون شاعر تھا کہیں کا کون دانشور مگر
دفتروں کی دوڑ وامقؔ ایسی راس آئی کہ بس

غزل
ہو رہی ہے در بدر ایسی جبیں سائی کہ بس
وامق جونپوری