EN हिंदी
ہو رہا ہے کیا جہاں میں اک نظر مت دیکھیے | شیح شیری
ho raha hai kya jahan mein ek nazar mat dekhiye

غزل

ہو رہا ہے کیا جہاں میں اک نظر مت دیکھیے

مہیش جانب

;

ہو رہا ہے کیا جہاں میں اک نظر مت دیکھیے
پہلے پنے پر ہے جو بس وہ خبر مت دیکھیے

دنیا کو تبدیل کرنے کے ہیں اس میں خواب بس
انقلابی ہوں مرا رخت سفر مت دیکھیے

پیار سے بگڑے بھی ہیں کچھ لوگ یہ مانا مگر
ہو دوا لازم تو اس کے بد اثر مت دیکھیے

کیا اجڑتا جا رہا ہے اس پہ بھی رکھیں نظر
صرف بستے اینٹ پتھر کے نگر مت دیکھیے

دیکھنا ہے یہ کہ بالکل ٹھیک ہو اپنی دشا
کتنی بھی چاہے ہو پر خم رہ گزر مت دیکھیے

شرم سے مر جاؤ گے انسان ہیں گر آپ اک
کس طرح کرتے ہیں یہ مفلس گزر مت دیکھیے

چاہے رک جاؤ کہیں بھی تان دو تنبو کہیں
پیچھے مڑ مڑ کر کبھی جانبؔ مگر مت دیکھیے