ہو رہا ہے کیا جہاں میں اک نظر مت دیکھیے
پہلے پنے پر ہے جو بس وہ خبر مت دیکھیے
دنیا کو تبدیل کرنے کے ہیں اس میں خواب بس
انقلابی ہوں مرا رخت سفر مت دیکھیے
پیار سے بگڑے بھی ہیں کچھ لوگ یہ مانا مگر
ہو دوا لازم تو اس کے بد اثر مت دیکھیے
کیا اجڑتا جا رہا ہے اس پہ بھی رکھیں نظر
صرف بستے اینٹ پتھر کے نگر مت دیکھیے
دیکھنا ہے یہ کہ بالکل ٹھیک ہو اپنی دشا
کتنی بھی چاہے ہو پر خم رہ گزر مت دیکھیے
شرم سے مر جاؤ گے انسان ہیں گر آپ اک
کس طرح کرتے ہیں یہ مفلس گزر مت دیکھیے
چاہے رک جاؤ کہیں بھی تان دو تنبو کہیں
پیچھے مڑ مڑ کر کبھی جانبؔ مگر مت دیکھیے
غزل
ہو رہا ہے کیا جہاں میں اک نظر مت دیکھیے
مہیش جانب