EN हिंदी
ہو نہ ہو آس پاس ہے کوئی | شیح شیری
ho na ho aas-pas hai koi

غزل

ہو نہ ہو آس پاس ہے کوئی

چندر بھان خیال

;

ہو نہ ہو آس پاس ہے کوئی
میرے جتنا اداس ہے کوئی

سوچتا ہوں تو اور بڑھتی ہے
زندگی ہے کہ پیاس ہے کوئی

حادثہ ایک بھی نہیں گزرا
بے سبب بد حواس ہے کوئی

پھر پرندے شجر سے بچھڑے ہیں
پھر سے تصویر یاس ہے کوئی

اپنی اردو تو لوک بھاشا ہے
اس سے کیوں نا شناس ہے کوئی