EN हिंदी
ہو کے اس کوچے سے آئی تو ستم ڈھا گئی کیا | شیح شیری
ho ke us kuche se aai to sitam Dha gai kya

غزل

ہو کے اس کوچے سے آئی تو ستم ڈھا گئی کیا

عمر انصاری

;

ہو کے اس کوچے سے آئی تو ستم ڈھا گئی کیا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ صبا پا گئی کیا

یہ وہی میرا نگر ہے تو مرے یار یہاں
ایک بستی مرے پیاروں کی تھی کام آ گئی کیا

میری سرحد میں غنیموں کا گزر کیسے ہوا
تھی سروں کی وہ جو دیوار کھڑی ڈھا گئی کیا

یوں تو کہنے کو بس اک موج تھی پانی کی مگر
دیکھنا یہ ہیں کہ پل بھر میں غضب ڈھا گئی کیا

بعد مدت کے ملا ہے تو مرے یار بتا
تیری آنکھوں میں جو اک برق تھی کجلا گئی کیا

اب کسی بات میں بھی جی نہیں لگتا میرا
دل میں آ بیٹھی تھی جو خواہش دنیا گئی کیا

تذکرے جس کے کتابوں میں پڑھا کرتے تھے
دیکھ بھائی وہ قیامت کی گھڑی آ گئی کیا

تیرے چہرے پہ عمرؔ آج یہ رونق کیسی
پھر طبیعت کوئی موضوع سخن پا گئی کیا