ہو کے سر تا بہ قدم عالم اسرار چلا
جو چلا مے کدۂ عشق سے سرشار چلا
ہم رہ حسن اک انبوہ حریدار چلا
ساتھ اس جنس کے بازار کا بازار چلا
نہ ہوا راہ محبت میں کوئی عہدہ برا
جو سبک دوش ہوا وہ بھی گراں بار چلا
ان کا جو حال کہ پہلے تھا وہی حال رہا
تیرے غم کشتوں سے اقرار نہ انکار چلا
آسماں ہو کہ قیامت ہو کہ ہو تیر قضا
چال اس فتنۂ دوراں سے ہر اک بار چلا
ذوق نظارہ اسی کا ہے جہاں میں تجھ کو
دیکھ کر بھی جو لیے حسرت دیدار چلا
حسن کافر سے کسی کی نہ گئی پیش فراقؔ
شکوہ یاروں کا نہ شکرانۂ اغیار چلا
غزل
ہو کے سر تا بہ قدم عالم اسرار چلا
فراق گورکھپوری