ہو کے مہ وہ تو کسی اور کا ہالا نکلا
ہم نے سمجھا تھا جسے گل سو وہ لالا نکلا
لینے خیرات ترے چہرۂ پر نور سے رات
بدر چاندی کا لیے ہاتھ میں پیالا نکلا
اس کے چہرے پہ نہیں کاکل مشکیں کی نمود
یہ پٹارے کے تئیں توڑ کے کالا نکلا
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ تیرا چاہنے والا نکلا
رات کوٹھے پہ چڑھا وہ تو کہوں کیا یارو
منظر بام سے اس کے وہ اجالا نکلا
برق جوں چمکے ہے یا چھوٹے ہے جیسے مہتاب
وہ اجالا تو کچھ اس سے بھی نرالا نکلا
جی کی سب دھوم تھی جب تن سے وہ نکلا تو نظیرؔ
پھر نہ سینے سے اٹھی آہ نہ نالہ نکلا
غزل
ہو کے مہ وہ تو کسی اور کا ہالا نکلا
نظیر اکبرآبادی