EN हिंदी
ہو کے بے چین میں بھاگا کیا آہو کی طرح | شیح شیری
ho ke bechain main bhaga kiya aahu ki tarah

غزل

ہو کے بے چین میں بھاگا کیا آہو کی طرح

کرشن بہاری نور

;

ہو کے بے چین میں بھاگا کیا آہو کی طرح
بس گیا تھا مرے اندر کوئی خوشبو کی طرح

کوئی سایہ نہ ملا سایۂ گیسو کی طرح
سارے جیون کی تھکن اتری ہے جادو کی طرح

میری آواز تجھے چھو لے بس اتنی مہلت
تیرے کوچے سے گزر جاؤں گا سادھو کی طرح

وہ جو آ جائے تو کیا ہوش کا عالم ہوگا
جس کے آنے کی خبر پھیلی ہے خوشبو کی طرح

زندگی پیار وفا سب کا مقدر یکساں
مسکراہٹ کی طرح ہے کبھی آنسو کی طرح

ہر طرف آگ لگا آئے ہو پھر پوچھتے ہو
کیوں چلی باد صبا اب کے برس لو کی طرح

شاعری تیری عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں
کر رہا ہوں میں تپسیا کسی سادھو کی طرح

ہر الم ساتھ رہا گرد سفر کی مانند
ہر خوشی راہ میں مجھ کو ملی جگنو کی طرح

زندگی ٹھوکریں کھاتی ہے بچھڑ کر تجھ سے
تیری پازیب کے ٹوٹے ہوئے گھنگھرو کی طرح

کوئی اشور کہے اس کو کہ خدا کوئی کہے
وہ مسلماں کی طرح ہے نہ وہ ہندو کی طرح

اپنی ہر سانس پہ احساں لئے ہمدردوں کا
زندگی جیتا ہوں اس عہد میں اردو کی طرح

اب یہ احساس کی خوبی ہو کہ خامی ہو نورؔ
اس کی نفرت کا دھواں بھی لگا خوشبو کی طرح