ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
کیا بن آئے اس گھڑی جب وہ بگڑ کر بیٹھ جائے
تو وہ آفت ہے کوئی تجھ سے اٹھا سکتا ہے دل
دیکھ لے کوئی جو تجھ کو دل پکڑ کر بیٹھ جائے
وصل میں بھی اس سے کہہ سکتا نہیں کچھ خوف سے
دور کھچ کر پاس سے میرے نہ مڑ کر بیٹھ جائے
دوستو میری نہیں تقصیر دل دینے میں کچھ
دل وہ لے کر ہی اٹھے جب پاس اڑ کر بیٹھ جائے
اس خوشامد سے مرا کچھ مدعا ہی اور ہے
چاہتے ہو تم یہ میرے پاؤں پڑ کر بیٹھ جائے
اس کا بل کھا کر وہ اٹھنا پاس سے میرے غضب
اور اک آفت ہے جو وہ کھچ کر اکڑ کر بیٹھ جائے
مفت لے لیتے ہیں دل عاشق سے اپنے وہ نظامؔ
لاکھ پھر مانگے کوئی تھک کر جھگڑ کر بیٹھ جائے

غزل
ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
نظام رامپوری