ہو کے عاشق جان مرنے سے چرائے کس لئے
مرد میداں جو نہ ہو میداں میں آئے کس لئے
جو دل و ایماں نہ دیں نذر ان بتوں کو دیکھ کر
یا خدا وہ لوگ اس دنیا میں آئے کس لئے
ہے یہ انداز حیا اور طرز تمکیں کیوں نہیں
جو نہ ہووے چور وہ آنکھیں چرائے کس لئے
دیکھیے کس جنتی کے آج کھلتے ہیں نصیب
تیغ کیوں تولے ہیں یہ چلے چڑھائے کس لئے
انگلیاں اپنے پر اٹھوانی نہ ہوں منظور تو
وہ کسی کو عام محفل سے اٹھائے کس لئے
اس کے پیچ و خم سے جیتے جی نکلنا ہے محال
حضرت کیفیؔ تم اس کوچے میں آئے کس لئے
غزل
ہو کے عاشق جان مرنے سے چرائے کس لئے
دتا تریہ کیفی