EN हिंदी
ہو گیا پائمال آنکھوں میں | شیح شیری
ho gaya paemal aankhon mein

غزل

ہو گیا پائمال آنکھوں میں

سید محمد عسکری عارف

;

ہو گیا پائمال آنکھوں میں
مر گیا اک سوال آنکھوں میں

اس کی دو بے مثال آنکھوں
حسن تھا با کمال آنکھوں میں

کیا بچا پر ملال آنکھوں میں
ہے فقط خون لال آنکھوں میں

عشق اول ہے ذہن میں جاناں
جو ہوا تیرے نال آنکھوں میں

جن سے نکلی ہو آنسوؤں کی ندی
تم نے دیکھا وہ تال آنکھوں میں

جنگ جاری ہے چار آنکھوں میں
ہو رہا ہے قتال آنکھوں میں

ان کی آنکھوں سے جب ملی آنکھیں
دل کا کہہ ڈالا حال آنکھوں میں

زندگی بے وفا ہے اے عارفؔ
اتنے سپنے نہ پال آنکھوں میں