ہو گیا ہے ایک اک پل کاٹنا بھاری مجھے
مار دے گی زندگانی کی گراں باری مجھے
در بدر پھر پھر کے خود اپنے سے نفرت ہو گئی
کھوکھلا سا کر گیا ہے رنج بیکاری مجھے
اتنا کچھ دیکھا کہ سب کچھ ایک سا لگنے لگا
کر گیا ہے وقت محسوسات سے عاری مجھے
میں سیہ ملبوس گزرے وقت کا ہوں ماتمی
زیست نے سونپی ہے ماضی کی عزا داری مجھے
ایک اک کر کے کٹے باہر کے سارے رابطے
کر گئی تنہا مری سوچوں کی بیماری مجھے
جی میں آتا ہے بکھر کر دہر بھر میں پھیل جاؤں
قبر لگتی ہے بدن کی چار دیواری مجھے
تو نظر آیا تو جنگل ذات کا جل جائے گا
راکھ کر دے گی تری خواہش کی چنگاری مجھے
روز و شب رہتا ہوں گم صم اور متفکر ریاضؔ
کرنی ہے کس امتحاں کی جانے تیاری مجھے
غزل
ہو گیا ہے ایک اک پل کاٹنا بھاری مجھے
ریاض مجید