EN हिंदी
ہو گیا ہے ایک اک پل کاٹنا بھاری مجھے | شیح شیری
ho gaya hai ek ek pal kaTna bhaari mujhe

غزل

ہو گیا ہے ایک اک پل کاٹنا بھاری مجھے

ریاض مجید

;

ہو گیا ہے ایک اک پل کاٹنا بھاری مجھے
مار دے گی زندگانی کی گراں باری مجھے

در بدر پھر پھر کے خود اپنے سے نفرت ہو گئی
کھوکھلا سا کر گیا ہے رنج بیکاری مجھے

اتنا کچھ دیکھا کہ سب کچھ ایک سا لگنے لگا
کر گیا ہے وقت محسوسات سے عاری مجھے

میں سیہ ملبوس گزرے وقت کا ہوں ماتمی
زیست نے سونپی ہے ماضی کی عزا داری مجھے

ایک اک کر کے کٹے باہر کے سارے رابطے
کر گئی تنہا مری سوچوں کی بیماری مجھے

جی میں آتا ہے بکھر کر دہر بھر میں پھیل جاؤں
قبر لگتی ہے بدن کی چار دیواری مجھے

تو نظر آیا تو جنگل ذات کا جل جائے گا
راکھ کر دے گی تری خواہش کی چنگاری مجھے

روز و شب رہتا ہوں گم صم اور متفکر ریاضؔ
کرنی ہے کس امتحاں کی جانے تیاری مجھے