ہو گئی ساری پشیمانی عبث
اپنی ہستی ہم نے پہچانی عبث
اب نکلتا ہی نہیں صورت سے عکس
دل کی یہ آئینہ سامانی عبث
آنکھ پتھر کی طرح ساکت ہو جب
قلزم خوں کی یہ جولانی عبث
زندگی ہے ریگ زار بے کراں
دیدۂ بے تاب طغیانی عبث
ملنے پر حیران ہونا تھا صباؔ
چھوٹ کر ان سے یہ حیرانی عبث
غزل
ہو گئی ساری پشیمانی عبث
صبا جائسی