EN हिंदी
ہو گئی ساری پشیمانی عبث | شیح شیری
ho gai sari pashemani abas

غزل

ہو گئی ساری پشیمانی عبث

صبا جائسی

;

ہو گئی ساری پشیمانی عبث
اپنی ہستی ہم نے پہچانی عبث

اب نکلتا ہی نہیں صورت سے عکس
دل کی یہ آئینہ سامانی عبث

آنکھ پتھر کی طرح ساکت ہو جب
قلزم خوں کی یہ جولانی عبث

زندگی ہے ریگ زار بے کراں
دیدۂ بے تاب طغیانی عبث

ملنے پر حیران ہونا تھا صباؔ
چھوٹ کر ان سے یہ حیرانی عبث