EN हिंदी
ہو گئے عنبر فشاں دونوں جہاں میرے لیے | شیح شیری
ho gae ambar-fashan donon-jahan mere liye

غزل

ہو گئے عنبر فشاں دونوں جہاں میرے لیے

زاہدہ کمال

;

ہو گئے عنبر فشاں دونوں جہاں میرے لیے
مسکرایا گلشن کون و مکاں میرے لیے

کیا ہوا میں نے جو گائے نغمۂ دار و رسن
تم نے خود چھیڑ تھا ساز امتحاں میرے لیے

آنکھ بھر آئی گلوں کے چاک داماں دیکھ کر
نشتر غم ہے چمن کی داستاں میرے لیے

یہ سمجھ کر اپنی بربادی پر ہنستی ہوں مدام
تیری دنیا میں نہیں شاید اماں میرے لئے

ہمکنار جلوۂ‌ یزداں ہے میرا دل کمالؔ
کیف زا ہیں رات کی تنہائیاں میرے لیے