ہو دل لگی میں بھی دل کی لگی تو اچھا ہے
لگا ہو کام سے گر آدمی تو اچھا ہے
اندھیری شب میں غنیمت ہے اپنی تابش دل
حصار جاں میں رہے روشنی تو اچھا ہے
شجر میں زیست کے ہے شاخ غم ثمر آور
جو ان رتوں میں پھلے شاعری تو اچھا ہے
یہ ہم سے ڈوبتے سورج کے رنگ کہتے ہیں
زوال میں بھی ہو کچھ دل کشی تو اچھا ہے
سزا ضمیر کی چہرہ بگاڑ دیتی ہے
خود اپنی جون میں ہو آدمی تو اچھا ہے
نہیں جو لذت دنیا نشاط غم ہی سہی
ملے جو یک دو نفس سر خوشی تو اچھا ہے
سفر میں ایک سے دو ہوں تو راہ آساں ہو
چلے جو ساتھ مرے بیکسی تو اچھا ہے
دیار دل میں مہکتے ہیں پھول یادوں کے
رچے بسے جو ابھی زندگی تو اچھا ہے
چلو جو کچھ نہیں باقرؔ متاع درد تو ہے
اسے سنبھال کے رکھو ابھی تو اچھا ہے
غزل
ہو دل لگی میں بھی دل کی لگی تو اچھا ہے
سجاد باقر رضوی