ہو اگر دیدۂ تر حسن نظر کھلتا ہے
شوق نظارہ سے احساس کا در کھلتا ہے
پوری پڑتی ہی نہیں ان کو ردائے غربت
پاؤں ڈھک جائیں اگر ان کے تو سر کھلتا ہے
اجنبیت کی وہ دیواریں اٹھائے جائیں
ان میں در کھلتا ہے کب اہل نظر کھلتا ہے
دل سمجھتا ہے کہ آسودگی منزل پر ہے
دیکھنا یہ ہے کہاں بار سفر کھلتا ہے
موجۂ شوق بھی رخ اپنا بدل لے اے کاش
بادباں کشتی الفت کا جدھر کھلتا ہے
حسن خود بین و خود آرا ہے مزاجاً پھر بھی
شاذ و نادر ہی وہ کھلتا ہے اگر کھلتا ہے
رہ گزر فکر و نظر کی نہ ہو راہیؔ محدود
خضر ہوں ساتھ تو امکان سفر کھلتا ہے
غزل
ہو اگر دیدۂ تر حسن نظر کھلتا ہے
سید نواب حیدر نقوی راہی