حصار ذات میں سارا جہان ہونا تھا
قریب ایسے تجھے میری جان ہونا تھا
تری جبیں پہ شکن کیوں وصال لمحے میں
محبتوں کا یہاں تو نشان ہونا تھا
تمہارے چھونے سے کچھ روشنی بدن کو ملی
وگرنہ اس کو فقط راکھ دان ہونا تھا
تمہاری نفرتوں نے مٹی میں ملا ڈالا
جو خواب تارا سا پلکوں کی شان ہونا تھا
بہت ہی تھوڑی تھی دل میں تمہارے عمر مری
تھی خواب زاد مجھے داستان ہونا تھا
بچھڑ گیا تو شبانہؔ ملال کیا کرنا
اسے بچھڑنا تھا وہم و گمان ہونا تھا
غزل
حصار ذات میں سارا جہان ہونا تھا
شبانہ یوسف