حصار شہر ملا دشت کا مزہ نہ ملا
جنوں کے دور میں بھی کوئی مشغلہ نہ ملا
اب اس گلاب نے کانٹے کی اک چبھن بھی نہ دی
ملا ضرور وہ مجھ سے مگر خفا نہ ملا
نہ تیرے قد کی کوئی بحر خوش خرام ملی
غزل کا ذکر ہی کیا کوئی قافیہ نہ ملا
جو بس چلے تو وہ سمٹا لے ہر نموئے بدن
حیا سے اپنی کوئی یوں تھکا ہوا نہ ملا
بھنور کی چیخ بلاتی رہی مگر اے شاذؔ
اندھیری رات تھی موجوں کا نقش پا نہ ملا
غزل
حصار شہر ملا دشت کا مزہ نہ ملا
شاذ تمکنت