EN हिंदी
حصار شہر ملا دشت کا مزہ نہ ملا | شیح شیری
hisar-e-shahr mila dasht ka maza na mila

غزل

حصار شہر ملا دشت کا مزہ نہ ملا

شاذ تمکنت

;

حصار شہر ملا دشت کا مزہ نہ ملا
جنوں کے دور میں بھی کوئی مشغلہ نہ ملا

اب اس گلاب نے کانٹے کی اک چبھن بھی نہ دی
ملا ضرور وہ مجھ سے مگر خفا نہ ملا

نہ تیرے قد کی کوئی بحر خوش خرام ملی
غزل کا ذکر ہی کیا کوئی قافیہ نہ ملا

جو بس چلے تو وہ سمٹا لے ہر نموئے بدن
حیا سے اپنی کوئی یوں تھکا ہوا نہ ملا

بھنور کی چیخ بلاتی رہی مگر اے شاذؔ
اندھیری رات تھی موجوں کا نقش پا نہ ملا