حس نہیں تڑپ نہیں باب عطا بھی کیوں کھلے
ہم ہیں گرفتہ دل ابھی ہم سے صبا بھی کیوں کھلے
اب یہ اداس دن ہمیں ساتھ لیے لیے پھرے
خواب بجھے تو کیا رہا کالی گھٹا بھی کیوں کھلے
دل کا کوئی زیاں نہیں جاں کا معاملہ نہیں
ہاتھ میں اک دیا نہیں موج ہوا بھی کیوں کھلے
یاں کسی رہ گزر پہ کچھ نقش قدم پڑے رہے
قاصد خوش خبر نہیں شہر سبا بھی کیوں کھلے
عمر تمام کاٹ دی حسرت کاخ و کو لیے
میرے تمہارے سامنے ارض و سما بھی کیوں کھلے
کوزہ بہ کوزہ بٹ گئیں جتنی بھی تھیں صداقتیں
خالی ہتھیلیوں پہ اب حرف دعا بھی کیوں کھلے
شدت رقص آرزو اپنا جواز آپ تھی
میری نگاہ پر اداؔ میری خطا بھی کیوں کھلے
غزل
حس نہیں تڑپ نہیں باب عطا بھی کیوں کھلے
ادا جعفری