EN हिंदी
حرص و ہوس کے نام یہ دن رات کی طلب | شیح شیری
hirs-o-hawas ke nam ye din raat ki talab

غزل

حرص و ہوس کے نام یہ دن رات کی طلب

سوربھ شیکھر

;

حرص و ہوس کے نام یہ دن رات کی طلب
امداد کی امید مفادات کی طلب

وہ سانحے کہ سوچ بدلنی پڑی مجھے
پیدائشی نہیں تھی خیالات کی طلب

میں بھی کسی مسیحا کے ہوں انتظار میں
تم کو بھی غالباً ہے کرامات کی طلب

خبروں میں ایک لطف کا پہلو تو ہے مگر
اچھی نہیں ہے اتنی بھی حالات کی طلب

کیسا عجیب روگ مرے جی کو لگ گیا
ہر وقت ہے کسی سے ملاقات کی طلب

جرأت سے اپنی خود بھی میں حیران ہوں بہت
بڑھتی ہی جا رہی ہے سوالات کی طلب

تو بھی گناہ گار یقیناً ہے ذات کا
سوربھؔ تری سزا بھی وہی ذات کی طلب