ہر خار و خس سے وضع نبھاتے رہے ہیں ہم
یوں زندگی کی آگ جلاتے رہے ہیں ہم
شیرینیوں کو زہر کے داموں میں بیچ کر
نغمے حیات نو کے سناتے رہے ہیں ہم
اس کی تو داد دے گا ہمارا کوئی رقیب
جب سنگ اٹھا تو سر بھی اٹھاتے رہے ہیں ہم
تا دل پہ زخم اور نہ کوئی نیا لگے
اپنوں سے اپنا حال چھپاتے رہے ہیں ہم
تیرے لیے ہی رات بھر اے مہر زر نگار
تاریکیوں کے ناز اٹھاتے رہے ہیں ہم
اب کوئی تازہ پھول کھلا خاک پائمال!
اپنا لہو زمیں کو پلاتے رہے ہیں ہم

غزل
ہر خار و خس سے وضع نبھاتے رہے ہیں ہم
خلیلؔ الرحمن اعظمی