ہنسا کے پہلے مجھے پھر رلا گیا اک شخص
فسانہ کہہ کے فسانہ بنا گیا اک شخص
دکھا کے ایک جھلک اپنی چشم مے گوں سے
مئے نشاط یہ کیسی پلا گیا اک شخص
کہوں تو کیسے کہوں اک عجیب منظر تھا
نگار خانۂ ہستی سجا گیا اک شخص
خلش سی اٹھتی ہے رہ رہ کے قلب مضطر میں
تھا کیسا تیر نظر جو چبھا گیا اک شخص
نہ جانے آ گیا دام فریب میں کیسے
تھا سبز باغ جو مجھ کو دکھا گیا اک شخص
تھی جس سے شمع شبستان زندگی روشن
جلا کے شمع محبت بجھا گیا اک شخص
میں اس کو دیکھ کے ہوش و حواس کھو بیٹھا
جب آیا ہوش میں اٹھ کر چلا گیا اک شخص
خمار جس کا ابھی تک ہے سر میں برقیؔ کے
شراب شوق کا چسکا لگا گیا اک شخص

غزل
ہنسا کے پہلے مجھے پھر رلا گیا اک شخص
احمد علی برقی اعظمی