ہجر زدہ آنکھوں سے جب آنسو نکلے خاموشی سے
کسی نے سمجھا رات سمے دو دیپ جلے خاموشی سے
میں بھی آگ لگا سکتا ہوں اس برسات کے موسم میں
تھوڑی دور تلک وہ میرے ساتھ چلے خاموشی سے
شام کی دھیمی آنچ میں جب خورشید نہا کر سو جائے
منظر آپس میں ملتے ہیں خوب گلے خاموشی سے
برف کی پرتیں جب بھی دیکھوں میں اونچی دیواروں پر
جسم سلگنے لگتا ہے اور دل پگھلے خاموشی سے
چاہت کے پھر پھول کھلیں گے آپ کی یہ خوش فہمی ہے
کپڑے میرے سامنے موسم نے بدلے خاموشی سے
دن کے اجالوں میں شاید میں خود سے بچھڑا رہتا ہوں
رات کی تاریکی میں اک خواہش مچلے خاموشی سے
جب بھی نادیدہ سپنوں نے من آنگن میں رقص کیا
تیری یاد کے جگنو چمکے رات ڈھلے خاموشی سے
ملک سخن کے شہزادوں کی صف میں کھڑا ہو جائے گا
گر ترے لہجے کی دھڑکن خوشبو اگلے خاموشی سے
غزل
ہجر زدہ آنکھوں سے جب آنسو نکلے خاموشی سے
رفیق خیال