EN हिंदी
ہجر تنہائی کے لمحوں میں بہت بولتا ہے | شیح شیری
hijr tanhai ke lamhon mein bahut bolta hai

غزل

ہجر تنہائی کے لمحوں میں بہت بولتا ہے

سعید قیس

;

ہجر تنہائی کے لمحوں میں بہت بولتا ہے
رنگ اس کا کئی رنگوں میں بہت بولتا ہے

میں اسے چپ کے حوالے سے بھی کیسے لکھوں
وہ تو ایسا ہے کہ حرفوں میں بہت بولتا ہے

ایک لو ہے کہ سر بام تھرکتی ہے بہت
اک دیا ہے کہ دریچوں میں بہت بولتا ہے

اپنی آواز سنائی نہیں دیتی مجھ کو
ایک سناٹا کہ گلیوں میں بہت بولتا ہے

ایک ہی لے سے ہے مانوس مرا تار نفس
ایک ہی سر میرے کانوں میں بہت بولتا ہے

چاٹ لیتی ہے مرا جسم مرے پیڑ کی دھوپ
میرا سایہ برے وقتوں میں بہت بولتا ہے

اکثر اوقات مری ذات کا اک خالی پن
میری ٹوٹی ہوئی چیزوں میں بہت بولتا ہے

دل مرا اس کی طرح پھول کے مانند ہے قیسؔ
جو مری بند کتابوں میں بہت بولتا ہے