ہجر و وصال کی سردی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
پھول سے اتنا ربط بڑھانا ٹھیک نہیں
قطرۂ شبنم اڑتے اڑتے کہتا ہے
اس کٹیا کو ڈھانے والے غور سے سن
اس کٹیا میں تیرا دھیان بھی رہتا ہے
ہر آنسو میں آتش کی آمیزش ہے
دل میں شاید آگ کا دریا بہتا ہے
مجھ سے بچھڑ کر پہروں رویا کرتا تھا
وہ جو میرے حال پہ ہنستا رہتا ہے
دل کو شاید فصل بہاراں راس نہیں
باغ میں رہ کر خوشبو کے دکھ سہتا ہے
میں نے اس کو اپنا مسیحا مان لیا
سارا زمانہ جس کو قاتل کہتا ہے
تارا تارا ہجر کے قصہ پھیلے ہیں
آنسو آنسو دل کا ساگر بہتا ہے
ان ہونٹوں سے یوں رستی ہے بات ظہیرؔ
جیسے اک نغموں کا جھرنا بہتا ہے
غزل
ہجر و وصال کی سردی گرمی سہتا ہے
ظہیر کاشمیری