ہجر و وصال یار کا موسم نکل گیا
اے درد عشق جاگ زمانہ بدل گیا
کب تک یہ روز حشر سن اے شام انتظار
کیا رات اب نہ آئے گی سورج تو ڈھل گیا
اب کے کہاں سے آئے ہو ساون کے بادلو
دیکھو تو سارا باغ ہی برکھا سے جل گیا
جاؤں کہاں کہ تاب نہیں عرض نغمہ کی
پانی میں آگ لگ گئی پتھر پگھل گیا
ساتوں سروں کے راگ سے جلتی ہے دل کی آگ
باد فنا میں بھی مرا شعلہ سنبھل گیا
اس کی صدا سے راگ نکالے شہابؔ نے
اک شب لگی وہ آگ کہ نادان جل گیا
غزل
ہجر و وصال یار کا موسم نکل گیا
شہاب جعفری