ہجر میں جو اشک چشم تر گرا
اک پیام حال دل بن کر گرا
دوستوں کے طنز کا ایک ایک تیر
برق بن بن کر مرے دل پر گرا
جب اٹھایا بزم سے اس شوخ نے
میں اٹھا اٹھ کر چلا چل کر گرا
وائے اک مفلس کا تھا سب کچھ وہی
ان دنوں سیلاب میں جو گھر گرا
کیا غضب ہے زندگی کی دوڑ میں
راہزن آگے بڑھا رہبر گرا
غزل
ہجر میں جو اشک چشم تر گرا
بدر جمالی