ہجر میں اتنا خسارہ تو نہیں ہو سکتا
ایک ہی عشق دوبارہ تو نہیں ہو سکتا
چند لوگوں کی محبت بھی غنیمت ہے میاں
شہر کا شہر ہمارا تو نہیں ہو سکتا
کب تلک قید رکھوں آنکھ میں بینائی کو
صرف خوابوں سے گزارا تو نہیں ہو سکتا
رات کو جھیل کے بیٹھا ہوں تو دن نکلا ہے
اب میں سورج سے ستارہ تو نہیں ہو سکتا
دل کی بینائی کو بھی ساتھ ملا لے گوہرؔ
آنکھ سے سارا نظارا تو نہیں ہو سکتا
غزل
ہجر میں اتنا خسارہ تو نہیں ہو سکتا
افضل گوہر راؤ