EN हिंदी
ہجر میں گزری ہے اس رات کی باتیں نہ کرو | شیح شیری
hijr mein guzri hai us raat ki baaten na karo

غزل

ہجر میں گزری ہے اس رات کی باتیں نہ کرو

عبدالمتین نیاز

;

ہجر میں گزری ہے اس رات کی باتیں نہ کرو
آپ تجدید ملاقات کی باتیں نہ کرو

دل نے ہر دور میں دنیا سے بغاوت کی ہے
دل سے تم رسم و روایات کی باتیں نہ کرو

ہمتیں قافلے والوں کی نہ ہوں پست کہیں
رہرو گردش حالات کی باتیں نہ کرو

چاہئے جوش طلب میرے شکستہ دل کو
ایسے حالات میں صدمات کی باتیں نہ کرو

زندگی اور بھی تشریح طلب ہے یارو
غم کے تپتے ہوئے لمحات کی باتیں نہ کرو

کتنے ہی زخم ہرے ہیں مرے سینے میں نیازؔ
آپ اب مجھ سے عنایات کی باتیں نہ کرو