ہجر میں گزری ہے اس رات کی باتیں نہ کرو
آپ تجدید ملاقات کی باتیں نہ کرو
دل نے ہر دور میں دنیا سے بغاوت کی ہے
دل سے تم رسم و روایات کی باتیں نہ کرو
ہمتیں قافلے والوں کی نہ ہوں پست کہیں
رہرو گردش حالات کی باتیں نہ کرو
چاہئے جوش طلب میرے شکستہ دل کو
ایسے حالات میں صدمات کی باتیں نہ کرو
زندگی اور بھی تشریح طلب ہے یارو
غم کے تپتے ہوئے لمحات کی باتیں نہ کرو
کتنے ہی زخم ہرے ہیں مرے سینے میں نیازؔ
آپ اب مجھ سے عنایات کی باتیں نہ کرو
غزل
ہجر میں گزری ہے اس رات کی باتیں نہ کرو
عبدالمتین نیاز