ہجر میں دل کا داغ جلتا ہے
بے کسی کا چراغ جلتا ہے
دل جلاتے ہو سرد مہری سے
اس طرح بھی چراغ جلتا ہے
میری آنکھوں میں ان کا جلوہ ہے
آئنہ میں چراغ جلتا ہے
دم ہے آنکھوں میں نبضیں ڈوبی ہیں
دھیما دھیما چراغ جلتا ہے
شعلۂ آہ یہ نہیں ہے سفیرؔ
حسرتوں کا چراغ جلتا ہے

غزل
ہجر میں دل کا داغ جلتا ہے
محمد عباس سفیر