ہجر کی رات مری جاں پہ بنی ہو جیسے
دل میں اک یاد کہ نیزے کی انی ہو جیسے
نہیں معلوم کہ میں کون ہوں منزل ہے کہاں
چادر خاک ہر اک سمت تنی ہو جیسے
اپنی آواز کو خود سن کے لرز جاتا ہوں
کسی سائے سے مری ہم سخنی ہو جیسے
حادثہ ایک مگر کتنے غموں کا احساس
ایک صورت کئی رنگوں سے بنی ہو جیسے
بھول کر بھی کوئی لیتا نہیں اب نام وفا
عشق اس شہر میں گردن زدنی ہو جیسے
کتنے آرام سے ہوں عرصۂ تنہائی میں
گوشۂ دشت میں بھی چھاؤں گھنی ہو جیسے
کس قدر نرم و دل آویز ہے یہ گرم سحر
دھوپ مہتاب کی چادر میں چھنی ہو جیسے
کبھی سینے سے بھی پھولوں کی مہک آتی ہے
دل میں بھی کوئی فضائے چمنی ہو جیسے
جسم وہ جسم کہ لپکا ہوا کوندا کوئی
ہونٹ وہ ہونٹ کہ لعل یمنی ہو جیسے
دل میں چبھتی بھی رہی آنکھ میں کھبتی بھی رہی
مژۂ تیز کہ ہیرے کی کنی ہو جیسے
خود ہی تصویر بناتا ہوں مٹا دیتا ہوں
بت گری میرے لیے بت شکنی ہو جیسے
کم نہیں ہمت فرہاد سے سعیٔ تخلیق
کسی شیریں کے لیے کوہ کنی ہو جیسے
محفل دوست کی رونق میں ہیں شہزادؔ مگر
دل کا یہ حال غریب الوطنی ہو جیسے
غزل
ہجر کی رات مری جاں پہ بنی ہو جیسے
شہزاد احمد