ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے
نت نئی بات چھوڑ جاتی ہے
عشق چلتا ہے تا ابد لیکن
زندگی ساتھ چھوڑ جاتی ہے
دل بیابانی ساتھ رکھتا ہے
آنکھ برسات چھوڑ جاتی ہے
چاہ کی اک خصوصیت ہے کہ یہ
مستقل مات چھوڑ جاتی ہے
مرحلے اس طرح کے بھی ہیں کہ جب
ذات کو ذات چھوڑ جاتی ہے
ہجر کا کوئی نا کوئی پہلو
ہر ملاقات چھوڑ جاتی ہے
غزل
ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے
فرحت عباس شاہ