EN हिंदी
ہجر کی منزل ہمیں اب کے پسند آئی نہیں | شیح شیری
hijr ki manzil hamein ab ke pasand aai nahin

غزل

ہجر کی منزل ہمیں اب کے پسند آئی نہیں

مہتاب حیدر نقوی

;

ہجر کی منزل ہمیں اب کے پسند آئی نہیں
ہم اکیلے ہیں مگر ہم راہ تنہائی نہیں

ایک دن چھن جائے گا آنکھوں سے سارا رنگ و نور
دیکھ لو ان کو کہ یہ منظر ہمیشائی نہیں

اک جنوں کے واسطے بستی کو وسعت دی گئی
ایک وحشت کے لیے صحرا میں پہنائی نہیں

کون سے منظر کی تابانی اندھیرا کر گئی
ایسا کیا دیکھا کہ اب آنکھوں میں بینائی نہیں

جب کبھی فرصت ملے گی دیکھ لیں گے سارے خواب
خواب بھی اپنے ہیں یہ راتیں بھی ہرجائی نہیں