ہجر کے موسم میں یادیں وصل کی راتوں میں ہیں
کچھ گلے شکوے یقیناً سب مناجاتوں میں ہیں
دھوپ کے موسم میں تھے پایاب دریا سب مگر
کیسے کیسے خشک منظر اب کے برساتوں میں ہیں
ہیں معطر اب بھی شامیں تیری خوشبو کے طفیل
ضو فشاں جگنو ترے اب بھی مری راتوں میں ہیں
تشنگی صدیوں کی قربت سے نہ بجھ پائی مری
لوگ کتنے مطمئن تھوڑی ملاقاتوں میں ہیں
دوسروں نے اپنی تقدیروں کے بل سلجھا لئے
زلف پیچاں ہم ابھی الجھے تری باتوں میں ہیں
بس گئے شہر حقیقت میں وہ جن کے دل نہیں
اہل دل تو اب بھی خوابوں کے مضافاتوں میں ہیں
آج ٹوٹے گا یقیناً پھر طلسم آئنہ
سارے چہرے مشتعل ہیں سنگ سب ہاتھوں میں ہیں
غزل
ہجر کے موسم میں یادیں وصل کی راتوں میں ہیں
اسعد بدایونی