EN हिंदी
ہجر غم کا بیان ہے گویا | شیح شیری
hijr gham ka bayan hai goya

غزل

ہجر غم کا بیان ہے گویا

شیام سندر لال برق

;

ہجر غم کا بیان ہے گویا
یاس کی داستان ہے گویا

اس کے جور و ستم کا کیا کہنا
ظلم میں آسمان ہے گویا

پاؤں پھیلائے خوب سوتے ہیں
کنج مرقد مکان ہے گویا

رخ سے ظاہر ہے حال درد فراق
قلب کا ترجمان ہے گویا

خال عارض پہ یوں نمایاں ہے
داغ دل کا نشان ہے گویا

ہجر میں آہ اس گل تر کے
رنگ رخ زعفران ہے گویا

درد دل کیوں کہیں نہ ہم ان سے
جب ہماری زبان ہے گویا

عرش سے آمد مضامیں ہے
یہ زمین آسمان ہے گویا

برقؔ تم نے غزل یہ خوب کہی
لکھنؤ کی زبان ہے گویا