ہجر غم کا بیان ہے گویا
یاس کی داستان ہے گویا
اس کے جور و ستم کا کیا کہنا
ظلم میں آسمان ہے گویا
پاؤں پھیلائے خوب سوتے ہیں
کنج مرقد مکان ہے گویا
رخ سے ظاہر ہے حال درد فراق
قلب کا ترجمان ہے گویا
خال عارض پہ یوں نمایاں ہے
داغ دل کا نشان ہے گویا
ہجر میں آہ اس گل تر کے
رنگ رخ زعفران ہے گویا
درد دل کیوں کہیں نہ ہم ان سے
جب ہماری زبان ہے گویا
عرش سے آمد مضامیں ہے
یہ زمین آسمان ہے گویا
برقؔ تم نے غزل یہ خوب کہی
لکھنؤ کی زبان ہے گویا
غزل
ہجر غم کا بیان ہے گویا
شیام سندر لال برق