حفظ گل کے لئے رکھتے جو نگہباں کچھ اور
ہو گیا پھولوں سے محروم گلستاں کچھ اور
لٹ کے سہمے ہوئے پودوں نے یہ سرگوشی کی
اب نگہبانوں پہ رکھیں گے نگہباں کچھ اور
شہر دل کچھ تو سجا لیں کہ بھرم رہ جائے
حسن فاتح کو ہیں تاراج کے ارماں کچھ اور
وقت ہر سانس کے بدلے میں پسینہ مانگے
دل یہ چاہے کہ ہو آسان بھی آساں کچھ اور
شہر سے پھر کوئی وحشی ادھر آیا شاید
آج صحرا میں ہیں انداز غزالاں کچھ اور
جن کو مشاطگئ زلف کا دعویٰ تھا بہت
کر گئے گیسوئے گیتی وہ پریشاں کچھ اور
پھر کبھی ہو کہ نہ ہو ملنے کی صورت پیدا
چند ساعت ہی چلے محفل یاراں کچھ اور
کچھ نہ ہونے پہ بہت کچھ ہے میسر احسنؔ
کاش ہوتے ترے معمورے میں انساں کچھ اور
غزل
حفظ گل کے لئے رکھتے جو نگہباں کچھ اور
احسن علی خاں