ہزیمتیں جو فنا کر گئیں غرور مرا
انہی کے دم سے منور ہوا شعور مرا
میں حیرتی کسی منصور کی تلاش میں ہوں
کرے جو آ کے یہ آئینہ چور چور مرا
رواج ذہن سے میں اختلاف رکھتا تھا
سر صلیب مجھے لے گیا فتور مرا
وہ اجنبی ہے مگر اجنبی نہیں لگتا
یہی کہ اس سے کوئی ربط ہے ضرور مرا
میں ڈوب کر بھی کسی دور میں نہیں ڈوبا
رہا ہے مطلعٔ امکان میں ظہور مرا
اسے اب عہد الم کی عنایتیں کہئے
کہ ظلمتوں میں اجاگر ہوا ہے نور مرا
میں اس لحاظ سے بے نام نام آور ہوں
کہ میرے بعد ہوا ذکر دور دور مرا

غزل
ہزیمتیں جو فنا کر گئیں غرور مرا
آفتاب اقبال شمیم