ہزار شکر کہ اندیشۂ مآل گیا
کوئی کسی سے جو کہنے کو دل کا حال گیا
کہاں کہاں نہیں دونوں کو دسترس حاصل
وہیں نگاہ بھی پہنچی جہاں خیال گیا
جواب میں نہ کھلیں لب تو کیا علاج اس کا
ہنسی ہنسی میں کوئی میری بات ٹال گیا
عجب تھیں فلسفیٔ نامراد کی باتیں
یقیں کے ساتھ مرے دل میں شک بھی ڈال گیا
قدم قدم پہ ہوئے ہوش گم منورؔ کے
تلاش دوست کا سودا گیا خیال گیا
غزل
ہزار شکر کہ اندیشۂ مآل گیا
منور لکھنوی