ہزار رنج ہو دل لاکھ درد مند رہے
خیال پست نہ ہو حوصلہ بلند رہے
غم فراق میں دل کیوں نہ درد مند رہے
بہار آ کے گئی ہم قفس میں بند رہے
خدا کی یاد میں دنیا کو بھول جا اے دل
وہ کام کر کہ ہر اک طرف سود مند رہے
ملے کہ کچھ نہ ملے مانگنے سے کام رکھوں
تری جناب میں دست دعا بلند رہے
دکھائیں گردش دوراں نے صورتیں کیا کیا
مگر مجھے تو اکیلے تمہیں پسند رہے
غرور حسن انہیں انکسار شیوۂ عشق
وہ بے نیاز رہے ہم نیاز مند رہے
جناب شیخ بھی مخمورؔ شب کو رندوں میں
عجیب حال سے مصروف وعظ و پند رہے
غزل
ہزار رنج ہو دل لاکھ درد مند رہے
مخمور دہلوی